استاد المجتھدین آیت اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم خوئی قدس سرہ

سید ابو القاسم موسوی خوئی (1899۔1992 ء)، شیعہ مرجع تقلید، ماہر علم رجال، 23 جلدی کتاب معجم رجال الحدیث اور البیان فی تفسیر القرآن کے مصنف تھے۔ میرزا نائینی و محقق اصفہانی فقہ و اصول فقہ میں آپ کے برجستہ ترین اساتید میں سے تھے۔ آپ کی مرجعیت کا باقاعدہ آغاز آیت اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد ہوا اور آیت اللہ سید محسن الحکیم کی رحلت کے بعد آپ خاص طور پر عراق میں مرجع کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ 70 سال کی تدریس کے دوران آپ نے فقہ کے درس خارج کا ایک، اصول فقہ کے چھ اور تفسیر کا ایک مختصر دورہ تدریس کیا۔ محمد اسحاق فیاض، سید محمد باقر صدر، مرزا جواد تبریزی، سید علی سیستانی، حسین وحید خراسانی، سید موسی صدر اور سید عبد الکریم موسوی اردبیلی جیسے علماء آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔

فقہ و اصول فقہ میں آپ منفرد اور مشہور شیعہ فقہاء کی آرا سے متفاوت نظریات کے حامل رہے یہاں تک کہ بعض نے ان کے متفاوت مسائل کی تعداد 300 سے بھی زیادہ ذکر کی ہے۔ فروع دین مین کافروں کا مکلف نہ ہونا، قمری مہینوں کی افق کے لحاظ سے ابتدا کا نہ ہونا اور شہرت فتوائی و اجماع جیسے مسائل میں آپ مشہور کے مخالف نظریات کے حامل تھے۔ اپنی مرجعیت کے دوران آپ نے دین کی تبلیغ، ضرورت مندوں اور محتاجوں کی امداد کے پیش نظر ایران، عراق، ملیشیا، انگلستان، امریکا اور ہند و پاک سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں لائبریریوں، مدارس، مساجد، امام باگاہوں اور ہسپتالوں کی تعمیر جیسے مذہبی اور فلاحی امور انجام دیئے ہیں۔

1960 ء کی دہائی میں آپ نے ایران کی پہلوی حکومت کے خلاف اپنے موقف کے اظہار میں بیانات صادر کئے تھے۔ جن میں 1963 ء میں مدرسہ فیضیہ کے واقعہ کی مذمت شامل ہے۔ 1979 ء میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد، شاہ مخلوع ایران محمد رضا پہلوی کی بیوی فرح دیبا کے ساتھ ملاقات سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ مختلف موارد منجملہ اسلامی نظام کیلئے منعقدہ ریفرینڈم اور ایران عراق جنگ میں آپ نے کھل کر انقلاب کی حمایت کرکے کیا۔ عراقی شیعوں کی انتفاضہ شعبانیہ عراق نامی تحریک اور شیعہ علاقوں میں انتظامی امور کی انجام دہی کیلئے شیعہ شورا کی تشکیل کے مطالبے کی حمایت کی وجہ سے عراق میں صدام حسین کی بر سر اقتدار بعثی حکومت نے آپ کی کڑی نگرانی شروع کی اور عمر کے آخر تک اپنے گھر میں نظر بند رہے۔

زندگی نامہ

سید ابو القاسم موسوی خوئی 15 رجب 1317 ھ (19 نومبر 1899ء) میں ایران کے صوبے مغربی آذر بائیجان کے شہر خوئی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید علی اکبر خوئی شیخ عبد اللہ مامقانی کے شاگرد تھے۔ ایران میں تحریک مشروطہ غیر مشروعہ کی حمایت نہ کرنے کی وجہ سے 1949 ء خوئی کو چھوڑ کر نجف اشرف میں سکونت اختیار کر لی۔

آیت اللہ خوئی نے بروز ہفتہ 8 صفر 1413 ہجری (8 اگست 1992 ء) حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے 97 برس میں شہر کوفہ میں وفات پائی اور حرم علی بن ابی طالب(ع) میں واقع مسجد خضراء کے صحن میں سپرد خاک کئے گئے۔

ازواج و اولاد

  •  سید جمال الدین خوئی: وہ سید خوئی کے بڑے فرزند تھے جنہوں نے اپنی بیشتر عمر اپنے والد کی مرجعیت کے معاملات کے انتظام و انصرام میں گذار دی۔ وہ سرطان کے مہلک بیماری میں مبتلا ہوکر علاج معالجے کے لئے تہران آئے اور 1984 میں دنیا سے رحلت کرگئے اور ایران کے شہر قم میں حرم حضرت معصومہ(س) میں سپرد خاک کئے گئے۔ ان کے آثار میں شرح کفایۃ الاصول، بحث فی الفلسفہ و علم الکلام، توضیح المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، شرح دیوان متنبی، فارسی میں ایک دیوان شعر۔
  • سید محمد تقی خوئی: 1989 ء میں آیت اللہ خوئی فاؤنڈیشن کی تاسیس پر انہیں اس کا سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا اور وہ بعثی نظام حکومت کے خلاف شروع ہونے والے انتفاضہ شعبانیہ (شعبان 1412 ھ) میں والد کے حکم پر آزاد ہونے والے علاقوں کے لئے تشکیل شدہ بورڈ کے رکن بنے؛ انتفاضہ کو کچلے جانے اور شیعیان عراق کے قتل عام کے بعد، انہیں اپنے والد کے ہمراہ نظربند کیا گیا۔ وہ والد کی وفات کے دو سال بعد 12 صفر 1415 ھ کو کار کے ایک مشکوک حادثے میں انتقال کرگئے۔ بعض افراد نے ان کے اکسیڈینٹ کو صدام حکومت کی سازش قرار دیا ہے۔ ان کے علمی کارناموں میں والد کے دروس کی تقریرات کے علاوہ کتاب الالتزامات التبعیة فی العقود شامل ہے۔

آیت اللہ خوئی کی بیٹیوں کے بارے میں اطلاعات دسترس میں نہیں ہیں۔ البتہ ان کے بعض داماد یہ ہیں: سید نصر الله مستنبط، سید مرتضی حکمی، سید جلال الدین فقیہ ایمانی، جعفر غروی نائینی و سید محمود میلانی۔

تعلیمی سفر

سید ابو القاسم سنہ 1330 ھ میں 13 سال کی عمر میں اپنے بھائی سید عبداللہ خوئی کے ہمراہ نجف اشرف میں اپنے والد سے جا ملے۔ چھ سال حوزے کی ابتدائی اور سطوح عالی کی تعلیم مکمل کی۔ 14 سال فقہ و علم اصول فقہ سمیت دیگر مختلف علوم پڑھے۔ ان کے اپنے کہنے کے مطابق اساتذہ میں سے محمد حسین نائینی اور محمد حسین غروی اصفهانی سے زیادہ استفادہ کیا۔

اساتید و اجازہ اجتہاد

آیت اللہ خوئی کی خود نوشت سوانح عمری کے مطابق، انہوں نے مرزا محمد حسین نائینی اور مرزا محمد حسین اصفہانی سے سب زیادہ علمی استفادہ کیا۔ ان سے اصول فقہ کا ایک مکمل دورہ اور بعض دیگر فقہی کتابیں پڑھیں۔ دیگر اساتید میں آپ نے شیخ فتح الله شریعت اصفہانی متوفا 1338 ھ)، شیخ مہدی مازندرانی (متوفا 1342 ھ) و آقا ضیاء عراقی کا ذکر کیا ہے۔

دیگر اساتذہ میں شیخ محمد جواد بلاغی سے علم کلام، عقائد اور تفسیر، سید ابو تراب خوانساری سے علم رجال و درایہ، سید ابو القاسم خوانساری سے علم ریاضیات، سید حسین بادکوبہ ای سے فلسفہ و عرفان اور اسی طرح سید علی قاضی شامل ہیں۔

سید ابو القاسم خوئی کے تمام تعلیمی مراحل کے دوران حوزه علمیہ نجف میں سید محمد ہادی میلانی (متوفا 1395 ھ)، سید محمد حسین طباطبائی (متوفا 1402 ھ)، سید صدر الدین جزائری، علی‌ محمد بروجردی (متوفا 1395 ھ)، حسین خادمی اصفہانی اور سید محمد حسینی ہمدانی سے مباحثہ کرتے رہے۔

1352 ھ میں حوزه علمیہ نجف کے بہت سے اساتذہ سے اجازه اجتہاد حاصل کیا۔ ان میں سے محمد حسین نائینی، محمد حسین غروی اصفہانی (کمپانی)، آقا ضیاء عراقی، محمد حسین بلاغی، مرزا علی آقا شیرازی، اور سید ابوالحسن اصفہانی ہیں۔

مرجعیت

سید خوئی کی مرجعیت کے سلسلے میں اقوال مختلف ہیں لیکن مسلّم یہ ہے کہ آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد ان کی مرجعیت کا مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث آیا اور آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم کی وفات کے بعد وہ برتر مرجع تقلید کے طور پر نمایاں ہوئے۔آپ کی مرجعیت ایران کے شیعوں کے درمیان بھی مہم ذکر کی گئی ہے۔آیت اللہ خوئی کا شمار ان مراجع تقلید میں ہوتا ہے کہ جن کی مرجعیت کا نفوذ عرب و غیر عرب تمام شیعوں میں تھا۔

نجف کے چودہ مجتہدین نے آپ کی اعلمیت کا اعلان کیا جن میں سے صدرا بادکوبہ اى، سید محمد باقر صدر، سید محمد روحانی، مجتبى لنکرانى، شیخ موسی زنجانی، یوسف کربلائی، سید یوسف حکیم اور سید جعفر مرعشی بھی شامل ہیں۔نیز سید موسی صدر نے مجلس اعلائے اسلامی شیعیان لبنان کی جانب سے آقای خوئی کی اعلمیت کا اعلان کیا۔

ستر سال تدریس

محمد حسین نائینی اور محمد حسین غروی اصفہانی کی وفات کے بعد سید ابو القاسم خوئی اور مرزا محمد علی کاظمی خراسانی کے درس پر رونق ترین درس شمار ہوتے تھے۔ محمد علی کاظمی خراسانی کی وفات کے بعد جمعیت کے لحاظ سے آپ کا درس سب سے بڑا ہوتا تھاخود ذکر کرتے ہیں کہ بیماری و سفر کے علاوہ سال کے دوران مسلسل درس جاری رہتا تھا۔مجموعی طور پر نجف میں ستر سال تک تدریس کی جس میں سے پچاس سال تک حوزۂ علمیہ نجف کا اہم ترین درس آپکا شمار ہوتا تھا۔ ایران، ہند، افغانستان، پاکستان، عراق، لبنان اور دیگر ممالک کے طلبا آپ کے درس میں شریک ہوتے تھے۔

آیت الله خوئی نے فقہ کے درس خارج کا ایک مکمل دورہ علم اصول فقہ کے چھ دورے شاگردوں کو پڑھائے۔ نیز علم تفسیر کا ایک مختصر دورہ بھی اس دوران دیا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اسے جاری نہ رکھ سکے۔

شیوۂ تدریس

آیت الله خوئی مباحث علمی کے دوران ایک منجھے ہوئے اور مسلط استاد کی مانند مطالب فصیح، منظم اور غیر ضروری تفصیل میں جائے بغیر بیان کرتے نیز ابحاث فلسفی کا ذکر نہیں ہوتا تھا لیکن کثیر تعداد میں روایات بیان کرتے جبکہ ان کی اسناد پر خصوصی توجہ سے بیان کرتے۔آپ کے درس خارج کی توصیف میں کہا جاتا ہے کہ وہ علمی اور مبانی کے لحاظ سے آقا ضیاء عراقی، محمد حسین نائینی اور محمد حسین غروی اصفہانی کا خلاصہ ہوتا تھا۔

اساتذہ کی تقریرات

متعلقہ مآخذ میں منقول ہے کہ سید ابوالقاسم خوئی نے اپنے اساتذہ میں سے دو کی تقریرات لکھی ہیں: محمد حسین نائینی اور محمد حسین اصفهانی۔آقا بزرگ تہرانی نے لکھا ہے کہ انھوں نے آقا ضیاء عراقی کی تقریرات بھی لکھی ہیں۔ ان ساری تقریرات میں اہم ترین اور مشہور ترین تقریرات محمد حسین نائینی کے درس اصول کی تقریرات ہیں جن کا عنوان سید خوئی نے اجود التقریرات رکھا ہے۔ یہ کتاب جو نائینی کی اصولی آراء و نظریات کا اہم ترین مآخذ سمجھی جاتی ہے پہلی بار جناب نائینی کی حیات میں ہی لبنان کے شہر صیدا سے دو مجلدات میں شائع ہوئی۔

سید خوئی کے دروس کی تقریرات

 
  1. دراسات فی الاصول: بقلم سید علی ہاشمی شاہرودی، یہ ان کے درس اصول کے تیسر دورے کی مکمل تقریرات ہیں۔
  2. محاضرات فی اصول الفقہ: بقلم محمد اسحٰق فیاض، جس کو سید خوئی نے بہت زیادہ پسند کیا ہے۔
  3. مبانی الاستنباط: بقلم سید ابوالقاسم کوکبی تبریزی۔
  4. مصابیح الاصول: بقلم سید علاءالدین بحرالعلوم۔
  5. رسالۃ فی الامر بین الامرین: بقلم محمد تقی جعفری۔آخوند خراسانی کی کتاب کفایۃ الاصول کی بحث الطلب و الارادہ کے ضمن میں فلسفی اور کلامی بحث مذکور ہے۔
  6. مصباح الفقاہۃ فی المعاملات: بقلم محمد علی توحیدی، سید خوئی نے اس پر اپنی تقریظ میں صاحب قلم کی تحقیق اور باریک بینی کی تعریف کی ہے۔
  7. التنقیح فی شرح المکاسب: بقلم علی غروی تبریزی۔
  8. محاضرات فی الفقہ الجعفری: بقلم سید علی ہاشمی شاہرودی۔
  9. المستند فی شرح عروۃ الوثقی: بقلم مرتضی بروجردی۔
  10. تحریر العروۃ الوثقی: بقلم قربان علی محقق کابلی۔
  11. دروس فی الفقہ الشیعہ: بقلم سید مہدی خلخالی۔

تالیفات اور علمی رسائل

  1. البیان فی تفسیر القرآن:
اس کتاب پر سید خوئی نے ایک مفصل مقدمہ لکھا ہے جو بعض قرآنی علوم و مباحث نیز سورہ حمد کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ البیانابتداء ہی سے علمی حلقوں میں لائق اعتنا قرار پائی اور حوزہ اور یونیورسٹیز کے قرآنی علوم کے نصاب میں شامل ہوئی۔[32] محمد صادق نجمی اور ہاشم ہاشم زادہ ہریسی نے اس کتاب کا بیان در علوم و مسائل کلی قرآن اور اس کے خلاصے کا شناخت قرآن کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب کے اعجاز والے باب کا ترجمہ مرزہائے اعجاز کے عنوان سے آیت اللہ جعفر سبحانی نے کیا ہے۔
  1. رسالۃ فی نفحات الاعجاز:
یہ ایک کلامی (اعتقادی) کتاب ہے جو انھوں نے قرآن کی کرامت اور اس کے اعجاز کا دفاع کرتے ہوئے نصیر الدین ظافر کے رمزی نام سے حسن الایجاز فی ابطال الاعجاز نامی کتاب لکھنے والے شخص کے جواب میں لکھی ہے۔
  1. معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرجال:
بلاشک و شبہ اور کسی مبالغے کے بغیر پوری تاریخ میں علم رجال میں ایسی جامع و کامل، سلیس اور مفید تالیف سامنے نہیں آئی ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد کے بعض مباحث کے عناوین کچھ یوں ہیں: علم رجال کی ضرورت اور اس کی دلیل، راوی کی وثاقت (اعتبار) کا معیار،‌ توثیقات عامہ کے اعتبار کا معیار، توثیقات عامہ میں مسائل،کتب اربعہ کی روایات کی صحت، ضرورتِ علمِ رجال کے منکرین کی دلیل اور اس کا جواب۔ نیز یہ کتاب 15676 افراد کے حالات بیان کئے گئے ہیں اور ان کے تمام اساتذہ اور شاگردوں کا تعارف کرایا اور یوں مشترکات کا مسئلہ حل ہوچکا ہے۔ نیز ان ہی کی کتاب المستدرک اور جناب محمد سعید طریحی کی کتابیں المعین علی معجم رجال الحدیث اور دلیل المعجم، معجم رجال الحدیث ہی کے سلسلے میں لکھی گئی ہیں۔ یہ کتاب شہر سنہ 1409 ہجری میں، قم میں منشورات مدینۃ العلم کے زیر اہتمام زیور طبع سے آراستہ ہوکر شائع ہوئی ہے۔
  1. مبانی تکلمۃ منہاج الصالحین:
یہ کتاب عربی کے عملیہ رسالے منہاج الصالحین کی استدلالی شرح ہے جس میں انھوں نے اپنے فتاوٰی کے اصول اور دلائل بیان کئے ہیں۔ یہ کتاب فقہ الجزاء (Criminal Jurisprudence) کے لئے مخصوص ہے۔ فوجداری قانون اور تعزيری قانون کے حوالے سے مستحکم ترین اور اہم ترین شیعہ فقہی متون میں سے ہے۔
  1. رسالۃ فی اللباس المشکوک:
یہ کتاب سید خوئی نے لباس مشکوک کے بارے میں تدریس ہی کے دوران تالیف کی تھی۔
  1. سید خوئی کا منظوم کلام:

یہ منظوم کلام 163 اشعار پر مشتمل ہے جس کا بڑا حصہ امام علی(ع) اوراہل بیت علیہم السلام کی شان میں ہے۔ محمد مہدی موسوی خرسان نے سید خوئی کے اس منظوم کلام پر عليٌّ إمامُ البَرَرَۃ کے عنوان سے شرح لکھی ہے اور یہ شرح سید علی حسینی بہشتی کے پیش لفظ کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔

عملیہ رسالے اور فتاوی

  1. منہاج الصالحین: یہ سید خوئی کی اہم ترین افتائی کاوش ہے۔ انھوں نے ابتدا میں اسے سید محسن حکیم کی منہاج الصالحین پر بطور تعلیقہ لکھا لیکن بعد میں انھوں نے اس اپنے تعلیقے کو سید حکیم کی آراء کی بجائے متن میں قرار دیا اور آخر کار انھوں نے یہ کتاب اپنی آراء اور فتاوٰی کے مطابق دوبارہ لکھی ہے۔
  2. تعلیقہ علی عروۃ الوثقی ۔: سید خوئی نے عروۃ الوثقی پر حاشیہ لکھا جو ان کے برگزیدہ شاگردوں کی موجودگی میں مرتب کیا گیا تھا۔ لیکن جب انھوں نے عروت الوثقی کی تدریس کی تو اس کتاب پر دوسری مرتبہ حاشیہ لکھا اور کہا گیا ہے نئے حاشیے کا ایک تہائی حصہ سابقہ حاشیے سے مختلف ہے۔
  3. موسوعۃ الامام الخوئی: یہ کتاب پچاس جلدوں پر مشتمل ہے اور سید خوئی کی بہت سی تالیفات اس میں شامل کی گئی ہیں۔

شاگرد

بعض تالیفات میں ان کے 600 کے قریب شاگرد شمار کیے گئے ہیں۔بعض برجستہ شاگرد ان کی ہیئت استفتا کے عضو تھے مثلا صدرا بادکوبہ ای، سید محمد باقر صدر، مرزا جواد تبریزی، سید علی حسینی بہشتی، سید مرتضی خلخالی، سید علی سیستانی، محمد جعفر نائینی اور مرتضی بروجردی، حسین وحید خراسانی، سید علی ہاشمی شاہرودی، محمد تقی جعفری، سید محمد حسین فضل الله، بشیر نجفی، سید موسی صدر، حاج آقا تقی قمی، سید عبد الکریم موسوی اردبیلی نیز دیگر شاگرد بھی مذکور ہیں۔

علمی نظریات

فقہ اور علم اصول فقہ میں آپ کی بعض آرا قابل توجہ ہیں اور مشہور شیعہ فقہا کے مخالف ہیں نیز 300 کے قریب شیعہ مشہور فقہا کے برعکس آپ کے فتاوا منقول ہیں۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • کفار فروع دین کے مکلف نہیں ہیں صاحب حدائق شیخ یوسف بحرانی بھی اسی کے قائل تھے۔ جبکہ دیگر فقہا اصول دین کے ساتھ ساتھ فروع دین میں کفار کو بھی مکلف سمجھتے ہیں۔
  • قمری مہینے کا آغاز افق کے تحت نہیں ہوتا ہے بلکہ چاند کے تحت الشعاع سے خروج کی وجہ سے نئے مہینے کا آغاز ہوتا ہے۔
  • شہرت فتوایی اور اجماع کی عدم حجیت کا قائل ہونا۔ شہرت فتوایی کے بارے میں سید ابو القاسم خوئی بالکل مشہور سے متفاوت نظریات کے حامل ہیں۔ اکثر شیعہ اصولی اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر فقہاء کے درمیان ایک فتوا مشہور ہو اور کوئی روایت اس کے ساتھ سازگار نہ ہو تو وہ روایت اگرچہ معتبر ہی کیوں نہ ہو اپنی جیثیت کھو دیتی ہے۔ لیکن آیت اللہ خوئی اس بات کے مخالف ہیں اور آپ نے اصول فقہ میں تعارض کے باب میں شہرت فتوائی کو ذکر ہی نہیں کیا ہے۔ ان کے مطابق شہرت عملی کبھی بھی کسی سند کے ضعف اور نقص کو جبران نہیں کر سکتی جس طرح تمام فقہاء اگر کسی صحیح حدیث سے صرف نظر کریں تو اس حدیث کی حجیت ساقط نہیں ہوتی۔اسی طرح آپ نے اجماع کی حجیت اور اعتبار پر بھی سوال اٹھایا ہے چاہے اجماع منقول ہو یا محصل۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے اجماع پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے فتووں میں اس سے استفادہ کیا ہے۔
  • مشہور کے مخالف فتاوا: شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کا گھر سے باہر نکلنا، بیوی کو اپنی موت کا احتمال ہو تو بیوی کیلئے سقط جنین جائز ہے، مسلمان مرد کا اہل کتاب عورت سے عقد دائمی کا جائز ہونا، جہاد ابتدائی امام معصوم کی موجودگی کے ساتھ مشروط نہیں، قاضی کیلئے اجتہاد کا ہونا شرط نہیں، غیر مسلم ممالک سے درآمد ہونے والے ایسے چمڑوں کا پاک ہونا جنکے شرعی طریقے کے مطابق ذبح ہونے میں شک ہو۔

سیاسی فعالیت

سید ابوالقاسم خوئی مرجعیت سے پہلے درس و تدریس کے ہمراہ اجتماعی اور سیاسی زندگی سے جدا نہیں رہے۔ مختلف مناسبتوں اور ایران کی پہلوی حکومت کے غیر اسلامی اقدامات کے خلاف اظہار خیال کرتے رہتے تھے۔ پھر تقریبا دس سال کا عرصہ سیاست سے کنارہ گیری اختیار کی اور ایران میں انقلاب اسلامی ایران کی بہمن 1357 شمسی میں کامیابی پر امام خمینی کی حمایت کی۔ لیکن جلد ہی انتفاضہ شعبانیہ کی حمایت کی وجہ سے نظر بند ہونا پڑا۔ سیاسی زندگی کے چند نمونے درج ذیل ہیں:

پہلوی حکومت کی مخالفت

مرجعیت سے پہلے سیاسی مسائل میں ایک نمایاں چہرے کی حیثیت سے سیاسی میدان میں موجود رہے اور بعض موقعوں پر انہوں نے شدید عکس العمل کا اظہار کیا۔[48] خوئی نے مہر 1341 شمسی میں ایک ٹیلیگراف میں پہلوی حکومت کی ملکی اور صوبائی انجمنوں کی مخالفت کی اور انہیں غیر شرعی اور اسلامی کہا۔[49] اسی طرح سید محمد بہبہانی کو دئے جانے والے ایک پیغام میں اس بات پر تاکید کی کہ ملت کی آواز کو زور کے ذریعے دبانے میں پائیداری نہیں اور عوام کو فریب دینے والی تشہیرات مشکلات کا حل نہیں ہیں نیز وہ اقتصاد کو کمزور اور عوام کے غم و غصہ کو کا علاج نہیں ہے ۔ [50] سال 1341 شمسی کے شروع میں مدرسہ فیضیہ میں حکومتی کارندوں کے حملے کی سخت مذمت کی اور مملکت اسلامی کے انحطاط اور حکومتی عہدیداروں کی راہ و روش پر اظہار تاسف کیا۔[51] ایک مہینے کے بعد ایرانی علما کی ایک ایک جماعت کے خط کے جواب میں فاسد حاکموں میں صلاحیت کے نہ پائے جانے اعلان کیا، روحانیت کی ذمہ داریوں کے بڑھنے اور انکی خاموشی کو ناروا قرار دیا۔[52] ۱۵ خرداد 1342 ش میں عوام کے کشت کشتار کے بعد ایرانی حکومت کی باڈی کو ستمگر، 21ویں اسمبلی کے انتخابات میں شرکت کی ممنوعیت کا حکم دینا اور اس انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی کو غیر معتبر کہنا، امام خمینی کی گرفتاری اور ان کے خلاف عدالتی کاروائی کی خبر کے نشر کے بعد امام خمینی کی حمایت کا اعلان اور دوسرے کئی اقدامات ان کے سیاسی اقدامات میں سے ہیں۔[53]

دس سال سے زیادہ خاموشی کا دور

آیت الله خوئی نے مرجعیت کے بعد سیاست سے کناره کشی اختیار کر لی اور یہ دور نجف میں امام خمینی کے زمانے کے ہمزمان تھا۔ [54] انقلاب کے دوران واقعات پر ان کے سکوت نے اعتراضات کو جنم دیا۔[55]آیت اللہ خوئی کے گھر شاہ ایران کی بیوی سے 28 آبان 1357 شمسی کی ملاقات سے مزید اعتراضات پیدا ہوئے لیکن آیت الله خوئی نے علما سے متعلق ایک یادداشت میں اس ملاقات کو ناگہانی اور اتفاقی کہا۔[56]

فرح دیبا کی آیت الله خوئی سے ملاقات

28 آبان 1357 شمسی کو شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کی بیوی فرح دیبا عید غدیر کے روز کسی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے بغیر اچانک آقا خوئی کے گھر گئی اور ان سے ملاقات کی۔[57] یہ ملاقات ان دنوں میں ہوئی جب ایران میں اسلامی انقلاب اپنے عروج کی حدوں کو چھو رہا تھا اور امام خمینی کو عراق سے نکال دیا گیا تھا۔[58] اس ملاقات کی وجہ سے انقلابی محافل میں آیت اللہ خوئی تنقید کا نشانہ بنے۔[59] یہی وجہ تھی کہ یہ مرجع تقلید نے سید صادق روحانی سے متعلق یادداشت میں اس ملاقات کے اچانک اور ناگہانی ہونے کی تاکید کی اور کہا کہ ہم نے اس ملاقات میں ایران میں ہونے والے ناخوشگوار واقعات اور فاجعات پر شدید تنقید اور اعتراضات کئے۔[60][61] محمد رضا پہلوی کے نزدیکی شخص بنام حسین فردوست کے مطابق آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی نے فرح پہلوی کے تقاضائے ملاقات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا اور فرح دیبا ذاتی طور پر اسلامی حجاب کے ساتھ آیت اللہ خوئی کے گھر گئی تھی۔[62]

انقلاب اسلامی ایران کی ہمراہی

آیت اللہ خوئی نے آبان 1357 شمسی میں فرح دیبا سے ملاقات کے بعد انقلاب اسلامی کی حمایت اختیار کی جبکہ ان دنوں میں پہلوی حکومت کے خلاف ایرانی عوام کے مبارزوں نے شدت اختیار کر لی تھی اور اسکے مختلف مواقع پر جمہوری اسلامی ایران کی حمایت کی ۔انقلاب کی کامیابی سے پہلے مراجع، علما اور ملت ایران کے ایک بیانیے میں ایرانی عوام سے کہتے ہیں: وہ شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے شجاعانہ قدم بڑھائیں۔[63] آقاخوئی نے انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران میں جمہوری نظام کی تعین میں لوگوں کو انتخابات میں شرکت کی دعوت دی اور اپنے شاگردوں سے تقاضا کیا کہ وہ انقلاب کے امور میں بھر پور حصہ لیں۔ایران و عراق جنگ میں صدام حکومت کے دباؤ کے باوجود ایرانی فوج کی اشیائے ضرورت میں وجوہات شرعیہ کے استعمال کے جواز کا فتوا دیا۔[64]

عراق سے ایرانیوں کا اخراج

1340 شمسی کی آخری دہائی میں عراق سے ایرانیوں کے اخراج کے موقع پر آیت اللہ خوئی ان چند شیعہ علما میں سے ہیں جنہیں وہاں سے نہیں نکالا گیا۔ بہت سے شاگردوں کے اس اخراج کی وجہ سے نجف کے دروس کی رونق میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔[65] آقا خوئی کے بہت سے شاگردوں نے حوزہ علمیہ قم میں اپنے استاد کے فقہی و اصولی تفکر کی ترویج کی۔ اس زمانہ میں اور اس سے قبل حوزہ علمیہ قم شیخ عبد الکریم حائری یزدی اور آیت اللہ بروجردی کی علمی روش کے تحت تاثیر تھا۔ آقا خوئی کے شاگردوں کی موجودگی، حوزہ علمیہ قم میں آیت اللہ العظمی خوئی، مرزا نائینی، محقق اصفہانی اور آقا ضیاء عراقی کے فقہی اور اصولی مبانی کی آشنائی کا موجب بنی۔[66]

انتفاضہ شعبانیہ عراق

 
 

عراقی شیعوں کی اس تحریک کی ہمراہی آیت الله خوئی کا اہم ترین سیاسی اقدام تھا کہ جس میں شیعوں کے تحت نظر علاقوں میں آپ نے شیعہ علاقے کے امور چلانے کیلئے نو افراد پر مشتمل کمیٹی مقرر کی۔ آیت اللہ خوئی کی گھر میں نظر بندی سے اس انتفاضہ شعبانیہ کو شکست اور صدام حکومت کے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔[67]

1991 ء میں آیت اللہ ابو القاسم خوئی کو اس تحریک کی مستقیم حمایت اور تعین رہبر کیلئے شورا بنانے کی وجہ سے گرفتار کرکے بغداد روانہ کیا گیا۔ گرفتاری کے دو روز بعد زبردستی صدام حسین کے روبرو پیش کیا اور صدام نے نہایت توہین آمیز لہجے میں آپ کو خطاب کیا۔[68]