مرجع دینی شیعیان جہان آیت اللہ العظمی سید محسن طباطبائی حکیم قدس سرہ
ولادت اور نسب
سید محسن حکیم عید فطر (یکم شوال) سنہ 1306 ہجری کو عراق کے مقدس شہر نجف کے مشہور عراقی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مہدی بن صالح طباطبائی نجفی المعروف بہ سید مہدی حکیم[1] عالم دین تھے۔ سید محسن چھ سال کی عمر میں والد کے سائے سے محروم ہوئے اور بڑے بھائی سید محمود نے ان کی سرپرستی سنبھالی
تعلیم اور اساتذہ
سید محسن نے سات سال کی عمر میں قرائت قرآن اور لکھنے پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرلی اور 9 سال کی عمر میں دینی علوم کے حصول میں مصروف ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی دروس منجملہ: عربی ادب اور منطق اور قوانین الاصول نیز معالم الاصول اور بعض فقہی متون ـ جیسے شرائع الاسلام اور شرح لمعہ ـ اپنے بھائی سید محمود کے پاس مکمل کرلئے اور اعلی سطح دروس کے لئے صادق جواہری اور صادق بہبہانی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔
سید محسن نے سنہ 1327 سے اعلی سطح حوزوی دروس (درس خارج) کا آغاز کیا اور آخوند ملا محمد کاظم خراسانی، آقا ضیاء عراقی، شیخ علی جواہری، میرزا حسینی نائینی اور سید ابو تراب خوانساری سے فقہ، اصول اور رجال میں فیض حاصل کرکے درجۂ اجتہاد تک پہنچے۔
نیز انھوں نے اخلاق میں سید محمد سعید حبّوبی، باقر قاموسی، سیدعلی قاضی اور شیخ علی قمی سے اخذ فیض کیا۔[3]
جہاد میں شرکت
1332 ہجری کا سال پہلی جنگ عظیم کا سال تھا جو پوری دنیا کے باسیوں کے لئے بہت تلخ اور دشوار زمانہ تھا۔ اگرچہ شیعیان اہل بیت(ع) کو سلاطین عثمانیہ کی جانب سے مسلسل مظالم اور بے اعتنائیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن عثمانیوں کے اس کردار نے انہیں اپنے فرائض سے غافل نہ کیا۔ نجف کے بزرگ علماء و مراجع تقلید نے برطانوی کفار کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیا۔[4] اور خود بھی دوسروں سے آگے آگے محاذ جنگ میں لڑنے چلے گئے۔
سید محسن حکیم سید محمد سعید حبوبی کی طرف سے شعیبیہ کے محاذ کے دائیں طرف کے مورچوں کے سالار تھے اور اسی عنوان سے عوام اور سلطنت عثمانیہ کی طرف پہنچنے والی امداد ان کے توسط سے مجاہدین تک پہنچنے لگی۔ یہ جنگ ناصریہ کو انگریز فوج سے بچانے کے لئے لڑی جارہی تھی لیکن برطانوی افواج نے بھاری حملہ کیا جس کی وجہ سے مجاہدین کو شکست ہوئی اور ناصریہ پر انگریزوں کا قبضہ ہوا۔[5]
تدریس اور شاگرد
سید محسن حکیم نے جہاد سے لوٹ کر سنہ 1333 میں اعلی سطحی کتب کی تدریس اور سنہ 1337 ہجری میں فقہ اور اصول کے درس خارج کا آغاز کیا اور تقریبا نصف صدی تک تدریس کا سلسہ جاری رکھا بڑی تعداد میں شاگردوں کی تربیت کی۔
سید محسن حکیم کے بعض شاگردوں کے نام[6] مندرجہ ذیل ہیں:
سید یوسف حکیم
محمد تقی آل فقیہ (لبنان (م 1420 ھ)
سید اسماعیل صدر
سید محمد تقی بحر العلوم
سید محمد باقر صدر
محمد علی قاضی طباطبائی
سید علی حسینی سیستانی
سید اسد اللہ مدنی
محمد مہدی شمس الدین
محمد حسین فضل اللہ
حسین وحید خراسانی
سید موسی صدر
سید حسن خرسان
سید حسین مکی عاملی
محمد تقی تبریزی
نصر اللہ شبستری
سید سعید حکیم
سید محمد موسوی بجنوردی
سید جلال الدین آشتیانی
علی اكبر ہاشمی رفسنجانی
محمد تقی جعفری
سید مصطفی خمینی
محمد جواد مغنیہ
ناصر مکارم شیرازی
احمد كافی
محمد ہادی معرفت
سید ہاشم رسولی محلاتی
مرجعیت
آیت اللہ محمد حسین نائینی کی وفات (سنہ 1355 ہجری) کے بعد ان کے بعض مقلدین نے سید محسن حکیم کی طرف رجوع کیا اور آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی کی وفات (سنہ 1365 ہجری) کے بعد ان کی مرجعیت استوار ہوئی جبکہ آیت اللہ بروجردی کی وفات (سنہ 1380 ہجری) کی وفات کے بعد سید محسن طباطبائی مرجع علی الاطلاق (مرجع کل) ہوگئے۔[7]
علمی آثار
سید محسن حکیم نے اپنے بعد 40 سے زائد علمی کاوشیں یادگار کے طور پر چھوڑی ہیں جن میں سے بعض ان کی تالیفات ہیں اور بعض شرحیں اور حاشیے ہیں۔[8]
مستمسک العروة الوثقی؛ یہ کتاب سید محمد کاظم طباطبایی یزدی کی کتاب عروۃ الوثقی کی سب سے پہلی استدلالی شرح ہے۔
حقائقالاصول؛ جو آخوند خراسانی کی کتاب کفایۃ الاصول کی شرح ہے۔
نہج الفقاہہ، یہ کتاب شیخ مرتضی انصاری کی کتاب المکاسب پر سید محسن حکیم کا حاشیہ اور شرح ہے۔
منہاج الناسکین؛ مناسک اور حج کے تفصیلی احکام کا مجموعہ۔
علامہ حلی کی کتاب تبصرۃ المتعلمین کی استدلالی شرح۔
شیخ بہائی کی کتاب تشریح الافلاک کی شرح (علم ہیئت)
محقق حلی کی کتاب المختصر النافعِ کی شرح؛ یہ کتاب سید محسن حکیم کی پہلی فقہی کاوش ہے۔
المسائل الدینیہ
رسالۃ فی ارث الزوجۃ
منہاج الصالحین؛ یہ سید حکیم کا رسالۂ عملیہ ہے جو فقہ کے مختلف ابواب میں سید محسن حکیم کے فتاوی کا مجموعہ ہے۔
تعلیمی، ثقافتی اور سماجی اقدامات
سید محسن حکیم کے بعض اقدامات حسب ذیل ہیں:
دسوں مساجد، حسینیات اور تعلیمی و تربیتی مراکز کی تاسیس یا تعمیر نو؛
نجف میں مکتبۃ آیۃ اللہ الحکیم العامہ کے نام سے ایک عمومی کتب خانے کی تاسیس، عراق کے بعض شہروں اور بعد ازاں انڈونیشیا، ایران، بحرین، پاکستان، شام، لبنان، مصر اور ہندوستان جیسے ممالک میں اس کے شعبوں کا قیام؛
الاضواء، رسالۃ الاسلام، النجف، الایمان، الثقافۃ الاسلامیۃ اور مِنْ ہُدَی النجف کے عنوان سے سلسلہ وار کتب اور کتابچوں کی مالی سرپرستی؛
اسلامی تعلیمات کو فروغ دے کر الحادی، شیوعی اور انحرافی افکار کے خلاف جدوجہد کرنے والے والے اہل قلم، خطباء، ادباء اور شعراء کی حمایت؛
علماء کے درمیان اختلافات دور کرنے کے لئے ایک وفد ہندوستان روانہ کرنا؛
پاکستانی مسلمانوں کے قتل عام پر موقف اپنانا اور رد عمل ظاہر کرنا؛
لبنان المجلس الاسلامی الشیعی الاعلی کی تاسیس کی حمایت و پشت پناہی۔ (ان کے شاگرد شیخ محمد مہدی شمس الدین (مرحوم) اس مجلس کے بانی سربراہ تھے۔
مصر کی جماعت اخوان المسلمین کے سلسلے میں موقف ظاہر کرنا۔[9]۔[10]
انھوں نے نجف، حِلّہ، اور کربلا میں کئی مدارس کی بنیاد رکھی؛ عراق، لبنان، پاکستان اور افغانستان کے مختلف شہروں میں مساجد کی تاسیس کے علاوہ، عراقی شہروں کرکوک، بغداد، حلہ اور مدینہ منورہ میں حسینیات کی بنیاد رکھی؛ میثم تمار کے مقبرے کی عمارت کی تعمیر نو کا اہتمام کیا؛ کربلا میں قمر بنی ہاشم(ع) کی ضریح بدل دی۔ انھوں نے مختلف ممالک میں دینی مدارس کی بنیاد رکھی۔[11] پاکستان کے شہر راولپنڈی میں مدرسہ آیت اللہ حکیم معروف و مشہور ہے۔
حوزۂ نجف کی ترقی کے لئے اقدامات
سید حکیم کے بعض اقدامات حسب ذیل ہیں:
طلاب کی تعداد بڑھانے کے لئے منصوبہ بندی اور کوشش، یہاں تک کہ حوزہ علمیہ نجف میں طلاب کی تعداد کی 1200 سے 8000 تک پہنچی؛
مدرسۂ علوم اسلامی کی تاسیس اور حوزہ علمیہ کے دروس کی علمی افزودگی کے لئے فلسفہ، کلام، تفسیر اور اقتصاد جیسے دروس شروع کروانا؛
مارکسیت جیسے الحادی افکار سے طلاب کی روشناسی کے لئے منصوبہ بندی اور اکابرین حوزہ کو ان افکار کے خطرات سے آگاہ کرنا؛
حوزہ کی مرکزیت ختم کرکے عراق کے دیگر شہروں اور پاکستان، سعودی عرب، افریقی ممالک جیسے دور دراز کے علاقوں میں حوزات علمیہ کی تاسیس؛
غیر ملکی طلاب کو حصول تعلیم کے لئے سہولیات کی فراہمی اور ایک مدرسہ ہندی طلبہ اور ایک افغانی اور تبتی طلبہ کے لئے مختص کرنا۔[12]
غیر ملکی طلاب کو حصول تعلیم کے لئے سہولیات کی فراہمی اور ایک مدرسہ ہندی طلبہ اور ایک افغانی اور تبتی [13] طلبہ کے لئے مختص کرنا۔[14]
شیوعیت (کمیونزم) کے خلاف جدوجہد
سنہ 1958 عیسوی میں عبدالکریم قاسم نے عراق میں بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کیا اور شیوعیت (کمیونزم) کی ترویج اور فقہی احکام سے متصادم آئین کی منظوری کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا۔
آیت اللہ حکیم نے باضابطہ طور پر ان قوانین کی منظوری پر اعتراض کیا اور علماء اور خطباء کو دعوت دی کہ لوگوں کو اس حکومت اور اس کے قوانین کی دین مخالفت نوعیت سے آگاہ کریں۔
انھوں نے سنہ 1959 عیسوی میں دو تاریخی فتاوی جاری کرکے شیوعی جماعت میں شمولیت کو شرعا ناجائز اور کفر کے مترادف یا کفر و الحاد کی ترویج کے مترادف قرار دیا۔ ان فتاوی کے بعد نجف کے دوسرے علماء نے بھی اسی مضمون میں فتاوی جاری کئے؛ اور آخر کار عبدالکریم قاسم کو معافی مانگنے پر مجبور کیا۔[15]۔[16]
سیاست کے میدان میں
داخلی سیاست
جماعۃ العلماء فی النجف الاشرف، نامی جمعیت کی تشکیل و تقویت،
سنہ 1963 عیسوی میں بغداد جاکر عبدالسلام عارف کی بعثی حکومت کے اقدامات اور حکومت کی طرف سے مخالفین پر تشدد کے خلاف شدید احتجاج؛
فرقہ وارانہ سیاست، مذہبی حوالے سے امتیازی رویوں اور عوام میں انتشار و اختلافات پر مبنی روشوں پر شدید احتجاج؛
سنہ 1964 عیسوی میں بعض تجارتی کمپینوں کے قومیائے جانے کے قانون پر اعتراض و احتجاج، کیونکہ حکومت کے اس اقدام کا مقصد شیعہ اکثریت کو مالی طور پر کمزور کرنا تھا؛
شمالی عراق کے کردوں کی سرکوبی کے سلسلے میں عبدالسلام عارف کے فیصلے کی شدید مخالفت اور کردوں کے خلاف جنگ کے ناجائز ہونے کے سلسلے میں فتوی جاری کرنا، جس کی وجہ سے کردوں کے قتل عام کا سدّ باب کیا گيا۔ [17] عبدالسلام عارف نے اپنا نمائندہ سید محسن حکیم کے پاس روانہ کرکے ان سے کردوں کے خلاف جنگ کے حق میں فتوی دینے کی درخواست کی جو انھوں نے شدت کے ساتھ مسترد کردی۔[18]
بین الاقوامی سیاست
سید محسن حکیم بین الاقوامی سطح پر فلسطین کے مسئلے کو خصوصی توجہ دیتے تھے اور سنہ 1967 میں فلسطین پر صہیونیوں کے حملے کے موقع پر مسلمین عالم کو استقامت اور تمام وسائل کو بروئے کار لانے کی دعوت دی؛ ایران کے اس وقت کی حکومت نے صہیونی ریاست (اسرائیل) کو تسلیم کیا تو انھوں نے اس کی شدید مذمت کی۔ سنہ 1969 عیسوی میں صہیونیوں نے مسجد الاقصی کو نذر آتش کیا تو سید حکیم نے بیان جاری کرکے مسلمانوں کو صہیونیوں کے مقابلے ان کی شرعی اور تاریخی ذمہ داریوں کی یادآوری کرائی۔[19]
آیت اللہ حکیم نے ایران کے بعض سیاسی واقعات کے موقع پر بھی محمد رضا پہلوی کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جیسے:
ایران میں ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے قانون کی منظوری پر شدید رد عمل کا اظہار؛
سنہ 1963 عیسوی میں محمد رضا پہلوی کی حکومت کے ہاتھوں مدرسہ فیضیہ کے متعدد طلاب کی شہادت پر شدید رنج و غم کا اظہار اور ایران کے علماء کو سب مل کر عراق کی طرف ہجرت کی تجویز؛ تاکہ وہ حکومت ایران کے سلسلے میں دو ٹوک فیصلہ سنائیں؛ تاہم امام خمینی سمیت علمائے قم نے اس تجویز کا جواب دیتے ہوئے ہجرت کو مناسب نہ سمجھا اور ایران میں علماء کی موجودگی کو ضروری سمجھا۔
جون سنہ 1963 عیسوی میں ایرانی حکومت نے عوام کا قتل عام کیا تو آیت اللہ حکیم نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شاہ کی حکومت امور مملکت کے انتظام میں بے بس ہوچکی ہے۔
وفات
احمد حسن البکر، کی بغاوت کے بعد ـ اسلام مخالف حزب بعث نے آیت اللہ حکیم پر دباؤ بڑھا دیا اور انہیں سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں اکثر اپنے گھر میں نظربند رہے، حوزہ علمیہ اور شیعیان عراق کو شدید سرکاری اقدامات اور دباؤ کا سامنا تھا تاہم سید حکیم نے عمر کے آخری لمحوں تک استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔[27]
بالآخر آیت اللہ سید محسن طباطبائی حکیم 84 سال کی عمر میں 27 ربیع الاول 1390 ہجری کو، علالت کے بعد بغداد میں انتقال کرگئے۔ ہزاروں عقیدت مندوں نے عظیم عوامی جلوسوں کی شکل میں ان کے جنازے میں شرکت کرکے ان کی میت بغداد سے کربلا، اور کربلا سے نجف منتقل کرکے ۔ ان کے کتب خانے کے پہلو میں، واقع مقبرے ـ جو انھوں نے خود تیار کیا تھا ـ سپرد خاک کیا